No products in the cart.
نسیم بلوچ نے بلوچ مزاحمت کے ساتھ عالمی یکجہتی کا مطالبہ کیا اور بلوچستان میں پاکستان اور چین کے کردار کی مذمت کی۔
نسیم بلوچ نے بلوچ مزاحمت کے ساتھ عالمی یکجہتی کا مطالبہ کیا اور بلوچستان میں پاکستان اور چین کے کردار کی مذمت کی۔
بلوچ نیشنل موومنٹ (BNM) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ پاکستانی حکومت نے بلوچ سرزمین پر وسیع اور جامع فوجی حملے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ہمارا قومی، حب الوطنی اور سیاسی فرض ہے کہ اس اعلان پر غور کریں، اس کے پیغام اور پس منظر پر قومی سطح پر اس کا تجزیہ کریں اور سمجھیں، اور اس کے مطابق جواب دیں۔ اس طرح کے بیانات کو سطحی یا محض اعلانات کے طور پر نہیں سمجھا جانا چاہئے، کیونکہ وہ وسیع اور کثیر جہتی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اس حکومتی فیصلے اور اعلان کے تمام پہلوؤں کا اچھی طرح تجزیہ اور ادراک کرتے ہوئے قومی سطح پر ایک جامع ردعمل مرتب کیا جانا چاہیے۔
سب سے پہلے، بحیثیت قوم، ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ پاکستانی حکومت مسلسل یہ دعویٰ کرتی ہے کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کیا جائے گا، مستقبل میں حملوں کی دھمکیاں بار بار دی جاتی ہیں۔ یہاں زبان اور مخصوص الفاظ کا استعمال ایک جان بوجھ کر نفسیاتی حربہ ہے، جس میں متعدد مقاصد کے حصول کے لیے "مستقبل کے تناؤ” کا استعمال کیا گیا ہے: جاری فوجی کارروائیوں، خوفناک اجتماعی سزاؤں اور نسل کشی کو چھپانا، جبکہ ساتھ ہی ساتھ اصل مسائل اور موجودہ حالات سے عوام کی توجہ ہٹانا۔ ایک متوقع آپریشن کی آڑ۔ اس منظم اور جدید پروپیگنڈے کا مقصد یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ پاکستانی ریاست اور فوج اس وقت بلوچستان میں فعال نہیں ہے اور کوئی بھی کارروائی مستقبل یا آنے والے دنوں میں ہی ہوگی۔
اس حکمت عملی کے ذریعے پاکستانی ریاست اور فوج نہ صرف اپنی جاری کارروائیوں کو چھپاتے ہیں بلکہ اپنے لوگوں میں ایک جھوٹا بیانیہ بھی پروان چڑھاتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان میں ابھی تک کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ بلوچوں کو مستقبل کے خطرات سے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں موجودہ فوجی کارروائیوں کی شدت اور ہولناکیوں پر توجہ مرکوز کرنے سے روکتے ہیں۔
پاکستانی ریاست اور فوج کے لیے بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت، اس کے وسائل کے بے لگام استحصال، اور سٹریٹجک سودے بازی میں اس کے کردار سے ہٹ کر، بلوچ قوم کو محض ایک کالونی اور غلام آبادی کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ ہم اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال خطہ ہے، پھر بھی یہ دولت یہاں کے باشندوں کو دو وقت کا کھانا یا پرامن زندگی بھی فراہم نہیں کر سکتی۔ حقیقی امن اور خوشحالی صرف آزاد زمین پر ہی حاصل ہو سکتی ہے، جہاں لوگوں کو اپنے وسائل کی ملکیت حاصل ہو۔ ان فوجی کارروائیوں کا مقصد صرف تزویراتی تحفظ یا قبضے کو مضبوط بنانا نہیں ہے بلکہ بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار کو برقرار رکھنے کے لیے ایک طریقہ کار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کارروائیوں کی آڑ میں فوج، اس سے منسلک ایجنسیاں اور اعلیٰ فوجی افسران باقاعدہ دفاعی بجٹ سے بڑھ کر اضافی بجٹ اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت بلوچستان میں تعینات اعلیٰ فوجی افسران کی ذاتی دولت میں مضمر ہے، جن کی دولت اکثر دو سالوں میں اربوں ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ دولت بلوچ عوام کے خون بہانے اور ان کے وسائل کی لوٹ مار سے حاصل کی گئی ہے۔
ریاست جب بھی نئی اور مزید خوفناک کارروائیوں کا اعلان کرتی ہے، یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ بلوچ مزاحمتی تنظیموں نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران گوریلا جنگ کے ذریعے اسے کامیابی سے چیلنج کیا ہے۔ یہ تنظیمیں، جنہیں ان کی پناہ گاہوں اور بلوچستان کے وسیع جغرافیہ اور ناہموار پہاڑوں میں وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے، فوج پر بار بار حملے کرتے ہیں۔ گوریلا جنگ کی حکمت عملی، وسیع عوامی حمایت کے ساتھ مل کر، انہیں پاکستانی افواج پر حملہ کرنے اور محفوظ مقامات کی طرف پیچھے ہٹنے کے قابل بناتی ہے۔ گزشتہ بیس سالوں کی جنگی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانی فوج اس حکمت عملی کا موثر جواب دینے میں ناکام رہی ہے۔ نتیجے کے طور پر، فوج اپنی ناکامیوں پر اپنی مایوسی عام بلوچ شہریوں پر نکالتی ہے، قوم کو اجتماعی سزا کا نشانہ بناتی ہے تاکہ وہ تحریک سے دستبردار ہونے اور ریاستی نظام کو قبول کرنے پر مجبور ہوں۔ اجتماعی سزا کی اس حکمت عملی کے تحت پاکستانی فوج نہتے شہریوں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نشانہ بناتی ہے، انہیں زبردستی غائب کر دیتی ہے، انہیں غیر انسانی تشدد کا نشانہ بناتی ہے اور اکثر انہیں ماورائے عدالت قتل کرتی ہے۔ یہ مظالم اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ریاستی مشینری اپنی ناکامی کو تسلیم کرنے کے بجائے پہلے سے مظلوم عوام پر اپنی جارحیت کو تیز کر رہی ہے۔
ریاستی بیانات اور بلوچستان میں جاری فوجی جارحیت ایک گہری سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا اور ان کی سرزمین کے وسائل کا استحصال کرنا ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ دنیا کو تسلیم کرنا چاہیے کہ بلوچستان کے لوگ اپنے حقوق اور آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور انھیں ان کے حق خودارادیت سے محروم کرنا ایک بہت بڑی ناانصافی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ بلوچ عوام کے حقوق اور ان کی مزاحمت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے اور ریاستی مظالم کے خلاف متحد ہو کر آواز اٹھائی جائے۔ ریاستی جبر اور نفسیاتی ہتھکنڈوں سے بلوچ قوم کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ اس کے بجائے، وہ آزادی کے لیے اپنی جدوجہد کو مزید مضبوط کریں گے۔
اس ساری صورتحال پر بین الاقوامی اداروں کی خاموشی اور بے عملی اس نسل کشی میں ملوث ہونے کے مترادف ہے۔ یہ بے عملی نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی برادری کی جانب سے اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں سے غفلت کا مظہر ہے جس سے بلوچ قوم کے مصائب میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
بلوچستان میں پاکستان کی جاری فوجی جارحیت اور نسل کشی میں چین کی بڑھتی ہوئی مداخلت ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکی ہے۔
ڈاکٹر بلوچ نے عالمی برادری کو خبردار کیا کہ بلوچستان میں پاکستان کی جاری فوجی جارحیت اور نسل کشی میں چین کی بڑھتی ہوئی مداخلت ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکی ہے۔ چین نے اپنے سامراجی اور توسیع پسندانہ عزائم کے تحفظ کے لیے بلوچستان میں پاکستانی ریاست کی بربریت کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ اسے مالی اور تکنیکی وسائل کے ذریعے تقویت بھی دی ہے۔ گوادر پورٹ اور سی پیک جیسے منصوبے اس کا واضح ثبوت ہیں۔ چین کا سامراجی ایجنڈا بالخصوص سی پیک ایک استحصالی منصوبہ ہے جو بلوچ عوام کی مرضی کے خلاف مسلط کیا گیا ہے۔ ان منصوبوں کے تحت بلوچ عوام کو ان کی زمینوں سے زبردستی بے دخل کیا جا رہا ہے، اور ان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے جواب میں بلوچ عوام ہر سطح پر مزاحمت کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان مظالم اور جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے اس مزاحمت کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ یا عالمی سازشوں کا حصہ قرار دیتا ہے۔ دریں اثنا، چین واضح سامراجی اور توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ بلوچ سرزمین پر موجود ہے۔ اس سے بلوچ سرزمین، قومی تشخص اور بقا کو براہ راست خطرہ لاحق ہے۔ مزید برآں، چین علاقائی تسلط کے لیے جاری جدوجہد میں اپنی بالادستی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ چین پاکستان اتحاد ہماری سرزمین پر سرگرم عمل ہے لیکن ہم اس کی ہر محاذ پر مزاحمت کریں گے۔
Please login to join discussion
easyComment URL is not set. Please set it in Theme Options > Post Page > Post: Comments