بلوچستان کے مختلف علاقوں سے پاکستانی فورسز نے مبینہ طور پر کم از کم سات افراد کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے، جس نے پورے خطے میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا، جیسا کہ بلوچستان پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ہے۔
بلوچستان پوسٹ کے مطابق، دو افراد مظیر ولد نذیر اور جاسم ولد احمد کو پاکستانی فورسز نے رات گئے پنجگور کے علاقے سیداں سے حراست میں لے لیا۔ اس کے جواب میں، ان کے اہل خانہ نے اپنے پیاروں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے سیدان میں سڑکیں بلاک کر کے اور ٹریفک کو روک کر احتجاجی دھرنا دیا ہے۔
بلوچستان پوسٹ نے مزید بتایا ہے کہ ضلع خضدار میں بھی احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں، جہاں کے رہائشی جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایک حالیہ واقعہ میں پاکستانی فورسز نے محمد سلیم ولد رستم خان کو زہری تراسانی میں اس وقت اغوا کرنے کی کوشش کی جب وہ اپنے مویشی چرا رہے تھے۔ تاہم، مقامی رہائشیوں اور سلیم کے اہل خانہ نے مداخلت کرتے ہوئے اغوا کو روک دیا۔ اس کے باوجود، سلیم کا خاندان اس کی حفاظت سے خوفزدہ ہے، اور انہوں نے اتھارٹی بلال بلوچیز کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہیں کوئی نقصان پہنچا تو وہ ریاست کو جوابدہ ہوں گے۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران، تحصیل خضدار میں مبینہ طور پر 12 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا، جس کے بعد خاندانوں نے احتجاج میں سڑکیں بلاک کر دیں۔
تربت میں جبری گمشدگیوں کے باعث تربت کوئٹہ M-8 CPEC ہائی وے پر شاپوک کے قریب احتجاجی مظاہرے ہوئے جہاں خواتین، بچوں اور نوجوانوں نے سڑک بلاک کردی۔ وہ منیر احمد، شکیل رند اور شہیق غلام قادر کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جنہیں 12 جنوری 2025 کو دکرم مویشی منڈی کے قریب سے حراست میں لیا گیا تھا۔ سات اضافی خاندان، جن کے لواحقین بھی لاپتہ ہو گئے ہیں، احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں، جس سے انصاف کی بڑھتی ہوئی آوازوں کو تقویت ملی ہے۔